بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم

پردہ  —حیا اور پاکدامنی کی ضامن ہے

مذہب اسلام ایک کامل دین اور مکمل ضابطۂ حیات ہے، حیا بھی اسلام کا جزولاینفک ہے، نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے کہ حیا ایمان کا حصہ ہے: اَلۡحَیَاءُ مِنَ الۡاِیۡمَانِ۔ اور حیا کا تقاضہ ہے کہ معاشرہ میں پھیلی بےحیائی وبےشرمی  اور عریانی وفحاشی کو سرے سے ختم کردیا جائے اور یہ بات طے شدہ  ہے کہ بےپردگی ہی بےشرمی وبےحیائی اور فحاشی وعریانی کا سبب بنا کرتی ہے، دین اسلام میں عورت کو پردے میں رہنے کا حکم بھی اسی وجہ سے دیا گیاہے، تاکہ پردے کا منشاء حیا جو عورت کی فطرت ہے وہ عورتوں میں باقی رہے اور معاشرہ پاکیزہ رہے۔ چنانچہ؁ ۵ھ میں  حضرت عمرؓ نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اسی غرض سے عرض کیا:

اے اللّٰہ کے رسول (ﷺ)! آپؐ کی بیویوں کے پاس نیک اور بُرے سب قسم کے لوگ آتے ہیں  تو اگر آپؐ اُن کو پردے کا حکم فرمائیں تو —اِس پر پردے کی آیت نازل ہوئی: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَدْخُلُ عَلَيْكَ ‏ ‏الْبِرُّ ‏ ‏وَالْفَاجِرُ ‏ ‏فَلَوْ أَمَرْتَ ‏ ‏أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ‏ ‏آيَةَ الْحِجَابِ۔ (بخاری ومسلم)

ذرا غور فرمائیے کہ نعوذ باللّٰہ!کیا حضرت عمرؓ کو آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کی حیا اور پاکدامنی پر شک تھا؟ ہرگز نہیں۔ حضرت عمرؓ کا مقصد صرف یہ تھا کہ حیا اور پاکدامنی کا تقاضہ ہے کہ عورت غیر محرم سے جتنا ہوسکے پردہ کرے۔

پردہ  — حیا اور پاکدامنی کی ضامن ہے
پردہ  — حیا اور پاکدامنی کی ضامن ہے

آج کل کے سائنسی دور میں مادّی ترقی کے ساتھ بےحیائی اور  فحاشی اپنے عروج پر ہے، فرنگی تہذیب کے اثرات نے فیشن پرستی اور بےحیائی کو عام کردیا ہے، اسی کا اثر ہے کہ کالجوں و یونیورسیٹیوں کی تعلیم یافتہ بیشتر خواتین نے حجاب کو غیر اہم سمجھنا شروع کردیا ہے۔ حالاں کہ قرآن و احادیث میں اس کی سخت تاکید کی گئی ہے۔   آیت پردہ  کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی شفیع صاحبؒ نے معارف القرآن میں لکھا  ہے کہ پردے سے متعلق قرآن مجید کی سات آیات اور نبی اکرم ﷺ کی ستّر احادیث ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ نے  قرآن مجید میں عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اپنے گھروں میں ٹِکی رہو اور اس طرح نہ دِکھلاتی پھرو جیساکہ زمانۂ جاہلیت میں دِکھلاتی پھرتی تھیں:  وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الأحزاب: ۳۳)

اِس آیت میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہےکہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور گھر میں رہ کر اپنے فرائض کو پورا کریں، یوں سر بازار بےپردہ نہ پھریں۔ گویا عورتیں جس قدر گھر میں رہیں گی   اور پردے کا اہتمام کریں گی اتنا ہی اللّٰہ تعالیٰ کا قُرب پائیں گی۔

اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے مال اور بیٹوں کو دنیاوی زندگی کی زینت قرار دیا ہے ، چنانچہ فرمایا: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (الکہف: ۴۶)

اس آیت میں مال اور بیٹے کو دنیا کی زینت کہا گیا ہے، بیٹیوں کو نہیں؛ کیوں کہ بیٹیاں پردہ کی چیز ہیں، نمائش کی نہیں۔ اس سے بھی عورتوں کے پردہ میں رہنے کا ثبوت ملتا ہے۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے؛ (کیوں کہ) جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانکتا ہے۔ اِنَّ الۡمَرۡأَۃَ عَوۡرَۃٌٌٌ، فَاِذَا خَرَجَتۡ اِسۡتَشۡرَفَہَا الشَّیۡطَانُ۔ (ابن کثیر: ۳/۴۸۲)

ایک مرتبہ ام المؤمنین حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ حضور ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ حضرت عبد اللّٰہ بن مکتومؓ گھر میں داخل ہوئے، یہ نابینا صحابی تھے، حضور ﷺ نے دونوں سے فرمایا کہ پردہ کرو۔  انہوں نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول (ﷺ)  ! کیا یہ نابینا نہیں ہیں؟ نہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی پہچان سکتے ہیں۔ حضورؐ نے فرمایا:  کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم اسے نہیں دیکھ رہی ہو؟  وَ کَانَتۡ حَفۡصَۃُ وَعَائِشَۃُ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمَا) یَوۡمًا عِنۡدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ جَالِسَتَیۡنِ، فَدَخَلَ ابۡنُ أُمِّ مَکۡتُومٍ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُ)، وَکَانَ اَعۡمَیٰ، فَقَالَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ: اِحۡتَجِبَا مِنۡہُ، فَقَالَتَا: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَ لَیۡسَ ھُوَ أَعۡمَیٰ؟ لَایُبۡصِرُنَا وَلَایَعۡرِفُنَا۔ فَقَالَ: أَ فَعَمَیَا؟ وَاِنۡ أَنۡتُمَا أَلَسۡتُہَا تُبۡصِرَانِہِ؟ (سنن أبی داؤد، والترمذی والنسائی)

بے پردگی شریف اور غیرت مند عورت کا شیوہ نہیں ہے، حافظ ابن کثیر ؒ  تفسیر ابن کثیر میں لکھتے ہیں: نیک بخت اور صاحب عزت عورت کا نشان گھونگھٹ ہے۔

قرآن کریم میں عورتوں کے پردے کے بارے میں جو آیت ہے، اس میں بنیادی طور پر ”جلباب“ کا لفظ آیا ہے، اور حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ کے بہ قول ”جلباب“ اس چادر کوکہاجاتاہے جواوپرسے لے کر نیچے تک پورے جسم کو چھپائے۔ لغت ِ عرب میں بھی ”جلباب“ اس چادرکوکہا جاتاہے جوپورے بدن کو چھپالے نہ کہ وہ چادر جو صرف بعض جسم کو چھپائے: قال العلامة الآلوسی: والجلابیب جمع جلباب: وہو علی ماروی عن ابن عباسؓ الذی یسترمن فوق الی أسفل (روح المعانی: ۱۱/۲۶۴، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت) وقال الامام ابن حزم: والجلباب فی لغة العرب التي خاطبنا بہا رسول اللّٰہﷺ ہوماغطّٰی جمیعَ الجسم لابعضہ۔ (المحلی لابن حزم: ۳/۲۱۷، ط: دارالفکر، بیروت) وقال ابن منظور: الجلباب ثوب أوسع من الخمار دون الرداء تغطی بہ المرأة رأسہا وصدرہا (لسان العرب: ۱/۲۷۲، ط: دراصادر، بیروت، وکذا فی تاج العروس: ۲/۱۷۵، دارالہدیة، بیروت) 

مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آیت مذکورہ میں عورتوں کو مکمل بدن چہرہ کے ساتھ چھپانے کا حکم ہے اورآیت کے نزول کامقصد بھی یہی ہے، چناں چہ جملہ مفسرین عظام اس کا یہی مطلب سمجھتے ہوئے آئے ہیں: حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے مومنین کی عورتوں کو یہ حکم فرمایا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں کے ذریعے اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے ڈھانپ لیں اور صرف ایک آنکھ کھولیں ۔

اورحضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی توانصار کی خواتین اپنے گھروں سے اس طرح نکلیں کہ گویاان کے سر اس طرح بے حرکت تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور ان کے اوپر کالا کپڑاتھا، جس کو وہ پہنی ہوئی تھیں۔ فأخرج ابن جریر وابن أبي حاتم وابن مردویہ عَنِ ابۡنِ عَبَّاسٍؓ فِی ھٰذِہِ الۡآیَةِ قَالَ: أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الۡمُوٴۡمِنِیۡنَ اِذَا خَرَجۡنَ مِنۡ بُیُوۡتِہِنَّ فِی حَاجَةٍ أَن یُّغَطِّیۡنَ وُجُوۡھَھُنَّ مِنۡ فَوۡقِ رُوٴُوسِہِنَّ بِالۡجَلَابِیۡبِ وَیُبۡدِیۡنَ عَیۡنًا وَّاحِدَةً․  وأخرج عبدالرزاق وأبو داوٴد وابن أبی حاتم عن أم سلمةؓ قالت: لمّا نزلت ہٰذہ الآیة: ”یدنین علیہن من جلابیہن“ خرج نساء الأنصار کأن علی روٴوسہن الغربان من السکینة وعلیہن أکسیة سود یلبسونہا۔ (فتح القدیر: ۴/۳۵۲، ط: دارابن کثیر) وقال الواحدي: قال المفسرون: یغطین وجوہہن وروٴسہن الاعینًا واحدةً (فتح القدیر: ۴/ ۳۴۹، دارابن کثیر) 

محمد بن سیرینؒ نے حضرت عبیدہ بن سفیان سلمانیؒ سے چادر کے اوڑھنے کا طریقہ معلوم کیا تو انھوں نے اپنی شال اٹھائی اورپہلے انھوں نے اپنے سر اورپیشانی کو اس طرح ڈھانکا کہ بھنویں تک چھپ گئیں، پھر اسی چادر سے اپنے چہرے کے بقیہ حصے کو اس طرح چھپایا کہ صرف داہنی آنکھ کھلی رہ گئی۔ (تفسیر ابن جریر)

اورحضرت قتادہؓ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورت اپنے جلباب کو اپنی پیشانی سے موڑ کر باندھ لے اور پھر اپنی ناک پرموڑلے، اگرچہ دونوں آنکھیں ظاہر ہوجائیں؛ لیکن اپنے سینے کو اورچہرے کے اکثر حصے کو چھپالے۔ 

وعن محمدبن سیرین قال سألتُ عبیدة السلمانی عن ہٰذہ الآیة: یدنین علیہن من جلابیبہن، فرفع ملحفةً کانت علیہ وغطی رأسہ کلّہ حتی بلغ الحاجبین وغطی وجہہ وأخرج عینہ الیُسریٰ من شق وجہہ الأیسر وقال قتادة: تلوی الجلباب فوق الجبین وتشدہ ثم تعطفہ علی الأنف وان ظہرت عیناہا لکن تستر الصدرومعظم الوجہ (روح المعانی: ۱۱/۲۶۴، ط: دارالکتب العلمیة، بیروت، ہکذا قال العلامة القرطبی في تفسیرہ: ۱۴/۴۸۱، ط: دارطیبة للنشر والتوزیع، وأبوالسعود: : ۷/۱۱۵، ط: داراحیاء التراث العربي، والقاضي ثناء اللّٰہ فيالتفسیرالمظہري: ۷/۳۸۴، ط: مکتبة الرشیدیة، باکستان

بہر حال یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ عورتوں کو گھروں سے نکلتے وقت اپنے بدن کے پردے کے ساتھ ساتھ چہرہ کابھی پردہ ضروری ہے، اب اس کے لیے کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے، جس میں پورا بدن چہرہ سمیت چھپ جائے۔

الغرض حیا عورت کی فطرت ہے، جب عورت ضمیر کے خلاف کام کرتی ہے تو بے حیا بن جاتی ہے اور شرم و حیا کو ایک طرف رکھ دیتی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تو بے حیا بن جائے تو پھر جو چاہے کر: اِذۡ لَمۡ تَسۡتَحۡیِ اِعۡمَلۡ مَا شِئۡتَ؟ اس سے  معلوم ہوا کہ بے حیائی ہی بےپردگی کا سبب بنتی ہے۔

آخرت میں بے پردہ عورت کے بڑے سخت عذاب ہیں، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ؐ کو روتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ آپؐ پر میرے ماں باپ قربان! آپؐ کیوں رو رہے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے علی! میں نے معراج کی رات اپنی امت کی عورتوں کو دیکھا کہ ان کو مختلف طریقوں سے عذاب دیا جا رہا ہے، آج مجھے وہ منظر یاد آیا تو شفقت ورحمت کی وجہ سے مجھے رونا آگیا۔ میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ اس کے سر کے بالوں کے ساتھ الٹا لٹگایا گیا ہے اور اس کا دماغ ہانڈی کی طرح ابل رہا ہے۔ یہ سن کر سیدہ فاطمہ ؓ کھڑی ہوگئیں اور عرض کیا کہ ابا جان!اس نے کیا گناہ کیے تھے کہ اتنی سخت سزا دی جارہی تھی؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بیٹی! وہ مردوں سے بالوں  کو نہ چھپاتی تھیں۔ 

معلوم ہوا کہ بےپردگی سنگین گناہ ہے، جس کی سزائیں دردناک اور نہایت تکلیف دہ ہیں۔مسلمان عورتوں کو  چاہئے کہ عذاب میں پکڑے جانے سے پہلے مکمل پردہ کو لازم پکڑلے: اَلۡحِجَابُ  اَلۡحِجَابُ  قَبۡلَ الۡعَذَابِ۔ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت اور غیرمحرموں کی نگاہوں سے اجتناب کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دے۔ شریعت نے جس طرح جہاد کرنے والے مرد کو مجاہد کی فضیلت سے نواز ہے کہ وہ قیامت میں بغیر حساب وکتاب کے جنت میں داخل ہوں گے، اسی طرح غیر محرم کی نگاہوں سے پاکدامن عورت گھر کی چہاردیواری میں رہتے ہوئے اللہ کے دفتر میں مجاہدہ لکھی جاتی ہے،  اسی  لئے قیامت کے ہولناک دن میں اسے عرش کا سایہ عطا کیا جائے گا۔