بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرّحیم
پیغمبر خدا حضرت محمد ﷺ پوری كائنات کےلیے سراپا رحمت ہیں
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب انسانیت ظلم و جبر، شرک و بت پرستی اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی، عورت کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، غلاموں کی کوئی حیثیت نہ تھی، کمزور پر طاقتور کا راج تھا، ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد انسانیت کو گمراہی سے نکال کر روشنی کی طرف لانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘ (الانبیاء: 107)
’’اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رحمت کا دائرہ کسی ایک قوم، نسل یا زمانے تک محدود نہیں، بلکہ آپ ﷺ پوری کائنات کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ آئیے اس مضمون میں ہم مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیتے ہیں کہ آپ ﷺ کس طرح ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ہیں۔
قرآن و حدیث میں نبی ﷺ کی رحمت کا بیان
• قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آپ ﷺ کی شفقت اور رحمت کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ‘‘ (التوبة: 128)
’’یقیناً تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، تمہاری تکلیف اسے گراں معلوم ہوتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا خواہاں ہے اور ایمان والوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔‘‘
• حدیث شریف میں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً‘‘ (سنن دارمی، حدیث: 87)
’’مجھے تو صرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو رحمت و شفقت سے لبریز ہے۔
معاشرتی زندگی میں رحمت
عورتوں کے لیے رحمت
اسلام سے پہلے عرب معاشرہ عورت کو ذلت کا سامان سمجھتا تھا، حتیٰ کہ بیٹی کو زندہ دفن کر دیتے، لیکن نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو اور میں تم سب سے اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہوں۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 3895)
غلاموں کے لیے رحمت
غلاموں کو اسلام سے پہلے جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا، لیکن آپ ﷺ نے ان کو عزت دی اور آزادی کی تلقین فرمائی، چنانچہ آپ ﷺ فرمایا:
’’تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں، ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، ان کو وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 30)
دشمنوں پر رحمت
’’فتح مکہ‘‘ تاریخ کا روشن باب ہے۔ جب مکہ فتح ہوا تو دشمنوں نے سوچا کہ آج انتقام لیا جائے گا، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا:
’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘ (سیرت ابن ہشام، جلد: 2، ص: 412)
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ ﷺ کو طائف میں پتھر مارے، مکہ سے نکالا، مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے معاف کر دیا۔
جانوروں کے ساتھ رحمت
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص اللہ کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا، اللہ بھی اس پر رحم نہیں کرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، حدیث: 5997)
آپ ﷺ جانوروں پر ظلم سے منع کیا، حتیٰ کہ پرندے کے گھونسلے سے بچے نکالنے کو بھی ناپسند فرمایا:
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ آپ ﷺ اپنی ضرورت کے لیے گئے، ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے ساتھ دو بچے تھے، ہم نے ان بچوں کو پکڑ لیا، وہ چڑیا آ کر زمین پر پر بچھانے لگی، اتنے میں نبی اکرم ﷺ آ گئے، اور (یہ دیکھ کر) فرمایا: ’’اس چڑیا کا بچہ لے کر کس نے اسے بے قرار کیا ہے؟ اس کے بچے کو اسے واپس کرو۔‘‘ اور آپ نے چیونٹیوں کی ایک بستی کو دیکھا جسے ہم نے جلا دیا تھا تو آپ ﷺ نے پوچھا: ’’اس کو کس نے جلایا ہے؟‘‘ ہم لوگوں نے کہا: ہم نے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’آگ سے عذاب دینا آگ کے مالک کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا۔‘‘ (سنن ابوداؤد، حدیث:2675)
غیر مسلموں کے لیے رحمت
مدینہ منورہ میں آپ ﷺ نے ایسا آئین بنایا جو تاریخ میں ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ تمام مذاہب کے پیروکار امن و سکون سے رہیں، ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کریں۔
ایک یہودی بچے کی عیادت کے لیے بھی آپ ﷺ گئے، اور اسی ملاقات میں وہ اسلام لے آیا۔ (صحیح بخاری، حدیث: 1356)
قیامت کے دن رحمت (شفاعت)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’میری شفاعت میری امت کے ان گناہگاروں کے لیے ہوگی جنہوں نے کبیرہ گناہ کیے ہوں گے۔‘‘ (سنن ترمذی، حدیث: 2435)
یہ امت کے لیے آپ ﷺ کی آخری رحمت ہوگی کہ قیامت کے دن بھی آپ ﷺ اپنی امت کے لیے فکر مند ہوں گے۔
خلاصۂ کلام
نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہیں۔ آپ ﷺ نے انسانیت کو عزت دی، غلاموں کو آزادی دی، عورتوں کو مقام دیا، دشمنوں کو معاف کیا، جانوروں پر رحم کیا، اور غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف قائم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا۔
ہم سب پر لازم ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر عمل کریں، تاکہ دنیا میں امن، محبت اور عدل قائم ہو سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں