قربانی کا مفہوم
قربانی مخصوص وقت یعنی ایام عید الاضحٰی میں کسی مخصوص جانور کو ثواب اور تقرب کی نیت سے ذبح کرنا ہے۔ [الدّرّ المختار]
![]() |
قربانی : اس کے فقہی احکام اور شرعی مقاصد |
قربانی کی مشروعیت
قربانی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہر شریعت وملت میں مشروع رہی ہے، چنانچہ ان کے بیٹے ہابیل نے ایک مینڈھے کی قربانی دی تھی۔ البتہ پچھلی امتوں میں قربانی کے بعد ذبیحہ کو جلادیا جاتا تھا اور قربانی کے بارے میں وہ مختلف توہمات وخرافات میں مبتلا تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام میں ان تمام توہمات وخرافات کو ختم فرما دیا اور قربانی کرنے میں اصل نیت کو قرار دیا، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَادِمَائُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ﴾ [الحج: ۳۷] ’’اللّٰہ کو ان کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا، لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘
مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پر اجماع ہے، اس کی بنیاد ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْؕ﴾ [الكوثر: ۲] ’’تو آپ اپنے پروردگار کےلیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے۔‘‘ اور امام بخاری وامام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللّٰہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے دو سفید سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے خود دیکھا ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح کیا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ انہیں ذبح کرتے وقت آپ ﷺ نے ان دونوں کی گردن کے ایک پہلو پر اپنا پاؤں مبارک رکھا اور آپ ﷺ نے ’’بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ أَكْبَرُ‘‘ بھی کہا تھا۔
قربانی کا حکم
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قربانی ہر صاحب حیثیت واستطاعت پر واجب ہے؛ کیونکہ رسول اللّٰہ ﷺ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے، آپؐ کا مواظبت کے ساتھ یہ عمل وجوب پر دلالت کرتا ہے، نیز امر وجوب کا حکم رکھتا ہے، جیسا کہ سورۃ الکوثر میں ہے: ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْؕ﴾ [الكوثر: ۲] ’’آپ اپنے پروردگار کےلیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے۔‘‘ جمہور کا صحیح ترین قول یہ ہے کہ قربانی کی استطاعت رکھنے والوں کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے، متعدد احادیث کی بنا پر جو اس کے واجب نہ ہونے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا کی حدیث ہے: ((إِذَا دَخَلَتْ الْعَشَرَۃُ الْأُوَلُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُّضَحِّيَ فَلَايَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَلَا مِنْ بَشَرِهِ شَيْئًا.)) [أخرجه مسلم] ’’جب ماہ ذی الحجہ کا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ نہ لے۔‘‘ (یعنی اپنے بالوں کو نہ کٹوائے اور نہ اپنے ناخنوں کو تراشے) آپ ﷺ کے قول: ’’أَرَادَ‘‘ (ارادہ) سے قربانی کے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ امام شافعیؒ اور امام ابو یوسفؒ کا ایک قول یہی ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے۔ تاہم جمہور احناف کے نزدیک قربانی کرنا واجب ہے؛ کیونکہ بعض احادیث میں ہر گھر کے ہر (صاحبِ استطاعت) فرد کے لیے ہر سال قربانی کرنے کا حکم وارد ہوا ہے۔ نیز نبی کریم ﷺ نے استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عید گاہ نہ آنے کا فرمایا ہے، ارشاد نبویؐ ہے: ”جس کو قربانی کرنے کی وسعت ہو اور وہ نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔“ [سنن ابن ماجة, كتاب الأضاحي] اس طرح کی نصوص سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ [بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: ۵ / ۶۲]
قربانی کی اہمیت وفضیلت اور اس کا ثواب
قربانی کی اہمیت وفضیلت اور اس کے ثواب کے بارے میں بہت سی احادیث وارد ہیں، ان احادیث میں سب سے زیادہ مستند وہ حدیث ہے جسے امام ترمذیؒ نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: ((مَا عَمِلَ آدمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَومَ النَّحْرِ أَحَبَّ إلَى اللّٰهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ؛ إنَّهَا لَتَأْتِي يَومَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أنْ يَّقَعَ مِنَ الْأَرْضِ، فَطِيْبُوْا بِهَا نَفْسًا)) ’’قربانی کے دن اللّٰہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کُھروں کے ساتھ آئیں گے، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔‘‘
ایک روایت میں حضرتِ زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہٴ کرام رضی اللّٰہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ ابراہیم علیہ السّلام کی سُنّت ہیں۔ صحابہٴ کرام رضی اللّٰہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! ان میں ہمارے لیے کیا ثواب ہے؟ فرمایا: ہر بال کے بدلے ایک نیکی ہے۔ عرض کیا: اور اُون میں؟ فرمایا: اس کے ہر ہر بال کے بدلے بھی ایک نیکی ہے۔ [سنن ابن ماجة, كتاب الأضاحي]
اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے قربانی کرنے کا کتنا عظیم ثواب بیان فرمایا ہے کہ جانوروں کے بالوں کے بقدر جو کہ گننا ناممکن ہے بندے کو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نیکیاں عطا فرماتے ہیں۔
ایک اور روایت میں نبی اکرم ﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت بی بی فاطمہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا سے ارشاد فرمایا: اے فاطمہ! اُٹھو، اپنی قُربانی کے جانور کے پاس جاؤ اور اسے لے کر آؤ؛ کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے پر تمہارے پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللّٰہ! یہ انعام ہم اہلِ بیت کے ساتھ خاص ہے یا ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ تو آپ علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: بلکہ ہمارے اور تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔ [المستدرك, كتاب الأضاحي]
حضرت عبد اللّٰہ ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلّم دس سال مدینہ میں مقیم رہے اور ہر سال قربانی فرماتے تھے۔ [سنن الترمذي]
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ سیاہ اور سفید رنگت والے اور بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی فرمایا کرتے تھے اور اپنے پاؤں کو ان کی گردن کے پاس رکھ دیا کرتے تھے اور اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرماتے تھے۔ [صحيح البخاري]
قربانی کے عمل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک وقت میں سو اونٹوں کی قربانی فرمائی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے خود اپنے دستِ اقدس سے سو میں سے تریسٹھ اونٹوں کو ذبح فرمایا؛ جب کہ باقی کے لیے حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہؓ کو ذبح کرنے کا حکم فرمایا۔ [صحيح البخاري]
حضور نبی کریم ﷺ کا ہر سال قربانی کرنا قربانی کی اہمیت، فضیلت، ثواب اور تاکید کے لیے کافی ہے۔
قربانی کی حکمت
قربانی کا سب سے بڑا مقصد ہمارے باپ خلیل اللّٰہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سُنّت کو زندہ کرنا ہے، جو آپؑ نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی، اپنے بیٹے کو ذبح سے متعلق خواب کو سچ کر دکھایا، اور پھر پروردگار نے آپؑ کی اس جاں نثاری اور سرتسلیم خم کے جذبے سے بے انتہا خوش ہو کر آپؑ کو انعام میں ایک عظیم فدیہ عطا فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَفَدَيْنَـٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍۢ﴾ [الصّافّات: ۱۰۷] ’’اور ہم نے ایک بڑا ذبح کیا ہوا جانور اس کے فدیہ میں دیا۔‘‘ گویا جب مسلمان قربانی کرتے ہیں، تو وہ اس دین اسلام کے لیے فدیہ وقربانی اور خدا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے اور اس کی اطاعت کے معانی کو مجسّم کرتے ہیں۔ حکیم ترمذی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: ’’قربانی کی علت یہ ہے کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو وہ جہنم کے عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے اور یوں اپنی ہلاکت کا خود ہی مستحق ہوجاتا ہے؛ اس لیے اسے فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، تاکہ بندہ سے عذاب ٹل جائے اور ہلاک ہونے سے بچ جائے؛ جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے خلیل حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کردیں، پھر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں ایک بڑا ذبح کیا ہوا جانور اس کے فدیہ میں دیا اور ذبح سے بچالیا۔ تو یہ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے دوست حضرت ابراہیمؑ کی ملت عطا فرمائی اور فدیہ ادا کرنے کا حکم دیا جو نجات کا ذریعہ ہے۔ [إثبات العلل للحكيم الترمذي, ص: ۲۰۸]
قربانی کی حکمت میں سے ایک حکمت مشابہت حجاج بیان کی گئی ہے کہ حرم میں حاجیوں کی قربانی اور حِل میں غیر حاجیوں کی قربانی میں باہم ربط واتصال ہے، دونوں مقاصد میں مشترک ہیں، یعنی دونوں کا مقصد ثواب اور تقرب ہے۔ دوسری حکمت: مال کی نعمت پر اللّٰہ کا شکر ادا کرنا، اور تیسری حکمت: غریبوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے سخاوت کرنا ہے۔
قربانی کے جانور کی عمر
شریعتِ مطہرہ میں قربانی درست ہونے کے لیے جانور کی ایک خاص عمر کی تعیین ہے، یعنی بکرا/بکری، دنبہ/دنبی وغیرہ کی عمر ایک سال، اور گائے، بھینس وغیرہ کی دو سال، اور اونٹ/اونٹنی کی عمر پانچ سال پورا ہونا ضروری ہے، البتہ دنبہ/دنبی اور بھیڑ اگر چھ ماہ کا ہوجائے لیکن وہ صحت اور فربہ ہونے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہو تو اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: ((لا تذبحوا إلا مسنة، إلا أن يعسر عليكم فتذبحوا جذعة من الضأن)) [رواه مسلم] ”تم مسنہ (یعنی بکری وغیرہ ایک سال کے عمر کی، گائے دو سال کے عمر کی اور اونٹ پانچ سال کی عمر کا ہو) کے سوا قربانی کا جانور ذبح نہ کرو، سوائے اس کے کہ اگر تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو تم ایک سال سے کم عمر کا دنبے کا بچہ ذبح کرلو (وہ چاہے چھ مہینہ کا ہی ہو)۔“
حدیث مذکورہ کی بنا پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بھیڑ، بکری، دنبہ وغیرہ میں ایک سال سے کم عمر کا جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے، البتہ فقط دنبہ میں اجازت ہے کہ وہ چھ ماہ کا بھی ذبح کیا جاسکتا ہے، لیکن باقی تمام جانوروں میں ثنی ہونا ضروری ہے، یعنی جو بکرا سال بھر کا ہوکر دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو وہ ثنی کہلاتا ہے، گائے اگر دو سال کی مکمل ہو کر تیسرے میں داخل ہوچکی ہو تو وہ ثنی کہلائے گی اور اسی طرح اونٹ اگر پانچ سال پورے کرچکا تو اسے ثنی کہا جاتا ہے۔
اگر یقینی طور پر معلوم ہو کہ ان جانوروں کی اتنی عمریں ہوگئی ہیں (مثلاً: جانور کو اپنے سامنے پلتا بڑھتا دیکھا ہو اور ان کی عمر بھی معلوم ہو) تو ان کی قربانی درست ہے، پکے دانت نکلنا ضروری نہیں، بلکہ مدت پوری ہونا شرط ہے۔ تاہم آج کل چوں کہ فساد کا غلبہ ہے؛ اس لیے صرف بیوپاری کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا احتیاطاً دانت کو عمر معلوم کرنے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کیا گیا ہے، دانتوں کی علامت ایسی ہے کہ اس میں کم عمر کا جانور نہیں آسکتا، ہاں زیادہ عمر کا آنا ممکن ہے، یعنی تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ مطلوبہ عمر سے پہلے جانور کے دو دانت نہیں نکلتے۔
قربانی کے شرائط
اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق قربانی کے درست ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں جن کا پورا ہونا ضروری ہے اور وہ یہ ہیں:
پہلا: قربانی کا جانور ’’بهيمة الأنعام‘‘ (یعنی پالتو اور چرنے چگنے والے چوپایوں) میں سے ہو، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوْا ٱسْمَ اللّٰهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن مْ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ﴾ [الحج: ۳۴] ’’اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی ہے؛ تاکہ وہ اللّٰہ کے دیئے ہوئے چوپایوں پر (ذبح کرتے وقت) اللّٰہ کا نام لیا کریں۔‘‘ اور ’’بہیمۃ الانعام‘‘ سے مراد اونٹ، گائے اور بھیڑیں ہیں، بکری بھیڑ کی ایک قسم ہے اور بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس میں مذکر ومؤنث (نر ومادہ) دونوں شامل ہیں۔ بہیمۃ الانعام کے علاوہ کسی اور چیز کی قربانی درست نہیں؛ کیوں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کا مواظبت کے ساتھ قربانی فرمانے کے باوجود ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ آپؐ نے ان چوپایوں کے علاوہ کسی اور چیز کی قربانی کی ہو۔ جہاں تک ابن حزم سے دوسرے پرندوں مثلاً مرغ اور مرغی کی قربانی کے جائز ہونے کے بارے میں روایت ہے تو یہ باطل اور غلط ہے، اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ انہوں نے دلیل کے طور پر نبی کریم ﷺ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت (جیسا غسل) کیا، پھر (مسجد) چلا گیا تو اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی کی، جو دوسری گھڑی میں گیا تو اس نے گویا گائے کی قربانی کی، جو تیسری گھڑی میں گیا تو اس نے گویا سینگوں والے ایک مینڈھے کی قربانی کی، جو چوتھی گھڑی میں گیا تو اس نے گویا ایک مرغ اللّٰہ کے تقرب کے لیے پیش کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو اس نے گویا ایک انڈا تقرب کےلیے پیش کیا۔‘‘ اس سے مرغی کے بعد انڈے کی قربانی کا جواز لازم آتا ہے، حالاں کہ کسی سے بھی، حتیٰ کہ خود ابن حزم سے بھی ایسا منقول نہیں ہے۔ یہ بات قابل فہم نہیں کہ پرندوں اور مرغیوں کے ذبح کو جائز قرار دے کر قربانی کے مقاصد اور معانی حاصل کیے جا سکیں۔ ہمیں شعائراللّٰہ کا احترام کرنا چاہئے جیسا کہ اللّٰہ رب العزت نے ہمیں حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ اللّٰهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ﴾ [الحج: ۳۲] ’’(سن لو کہ) جو شخص اللّٰہ کی نسبت رکھنے والی یادگاروں کا ادب کرتا ہے تو یہ (ادب) اس وجہ سے ہے کہ دلوں میں اللّٰہ کا ڈر ہے۔‘‘
دوسرا: بقدر نصاب مال کا مالک ہو، یعنی اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی ،یا ساڑے سات تولہ سونا، یا اس کے بقدر مالیت کے سامان ہوں، یا اس کی ملکیت میں ضرورت سے زائد اتنا سامان ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو، یعنی ساڑھے سات تولہ سونا (87.4875گرام ) یا ساڑھے باون تولہ چاندی (612.4125گرام )، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو، یا رہائش کے مکان سے زائد مکانات یا جائیدادیں وغیرہ ہوں، یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوں جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا مالِ تجارت، شیئرز وغیرہ ہوں تو اس پر ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہے۔ (تجارتی سامان خواہ کوئی بھی چیز ہو، اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس کے مالک پر بھی قربانی واجب ہوگی۔) نیز قربانی واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم، یا ضرورت سے زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے۔
بنا بریں جس کے پاس رہائشی مکان کے علاوہ زائد مکانات موجود ہوں، ضروری مکان کے لیے پلاٹ کے علاوہ دیگر پلاٹ ہوں، ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہوں، خواہ یہ سب تجارت کے لیے ہو یا نہ ہو، بہر حال ایسا شخص قربانی کے حق میں صاحبِ نصاب ہے، اور اس پر قربانی کرنا شرعاً واجب ہے۔
ذوالحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مالک ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہے، نیزاگر قربانی کے تین دنوں میں سے آخری دن (۱۲؍ذی الحجہ) کو بھی کسی صورت سے نصاب کے برابر مال یا ضرورت سے زائد سامان کا مالک ہوجائے تب بھی اس پر قربانی واجب ہے۔ [ردّ المحتار، ج:۶، ص:۳۱۲، الفتاوىٰ الهندية، ج: ۵، ص: ۲۹۲، البحر، ج: ۸، ص: ۱۷۴]
تیسرا: قربانی کا جانور ایسے عیبوں سے پاک ہو جو معیار کو متاثر کرے یا ناگوار معلوم ہو، مثلاً ایک آنکھ والا، لنگڑا یا بیمار ہونا۔ قربانی کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ قربانی کے لیے بہتر جانور کے انتخاب میں احتیاط برتے، وہاں سے حاصل کرے جہاں مویشیوں کو دوائیوں اور ہارمونز سے موٹا نہ کیا جاتا ہو، جو انسانوں اور جانوروں کے لیے نقصان دہ ہوں؛ کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ پاک ہے اور صرف پاکیزہ چیزوں کو قبول کرتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ﴾ [آل عمران: ۹۲] ’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ ﴿يَـٰٓأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَـٰتِ مَا كَسَبْتُمْ﴾ [البقرة: ۲۶۷] ’’اے ایمان والو! اپنی کمائی کی پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو۔‘‘
مندرجہ ذیل عیب دار جانوروں کی قربانی درست نہیں:
ایسا مجنوں جانور جو جنون کی وجہ سے چارہ نہ کھاتا ہو۔ ایساخارش زدہ جانور جو خارش کی وجہ سے بے حد کمزور ہوگیا ہو۔ ایسا جانور جو دیکھ نہ سکتا ہو۔ ایسا جانور جو بہت ہی لاغر ہو۔ ایسا جانور جو قربان گاہ کی طرف خود نہ چل سکتا ہو۔ ایسا جانور جس کا ایک تہائی کان، یا دم، یا بینائی، یا چکتی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ جا چکا ہو۔ ایسا جانور جس کے پیدائشی کان نہ ہوں۔ ایسا جانور جس کے تھنوں کا سرا کٹا ہوا ہو۔ ایسا جانور جس کے تھن خشک ہوگئے ہوں۔ (گائے کے دو تھن خشک ہوچکے ہوں اور بکری کا ایک تھن خشک ہوجائے تو قربانی درست نہیں ہوگی۔) ایسا جانور جس کی ناک کٹی ہوئی ہو۔ ایسا جانور جو خنثی ہو۔ [قربانی کے مسائل کا انسائیکلو پیڈیا، از: مولانا مفتی محمدانعام الحق قاسمی]
چہارم: شریعت میں قربانی کرنے کے جو ایام اور اوقات معین ہیں انہیں ایام واوقات میں قربانی کے جانور ذبح کیے جائیں۔ قربانی کا وقت ذوالحجہ کی دس تاریخ کو عید کی نماز کے بعد سے لے کر بارہ تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے تک ہے، ان ایام میں سے جس دن بھی آدمی چاہے بلاکراہت قربانی کرسکتا ہے، البتہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے، عید کے چوتھے دن یعنی ۱۳؍ ذو الحجہ کے دن قربانی کرنا معتبر نہیں ہے؛ اس لیے کہ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابنِ عمر اور حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابۂ کرام سے مروی ہے کہ قربانی کے تین دن ہیں اور پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عبادات کے مخصوص اوقات صحابہ کرام خود سے نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کے بیان کی روشنی میں بتاتے تھے۔ [بدائع الصنائع: ۵/۶۵]
ایک جانور میں قربانی اور عقیقہ کرنے کا حکم
احناف نے ایک جانور میں قربانی اور عقیقہ کے اجتماع کو جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ دونوں اس حقیقت میں مشترک ہیں کہ ان سے مقصود تقرب الی اللّٰہ ہے۔
ایک ہی جانور میں اگر وہ چھوٹا جانور ہے قربانی اور عقیقہ دونوں کی نیت کرنا صحیح نہیں، ہاں اگر جانور بڑا ہو اوراس میں کچھ حصے عقیقے کی طرف سے اور کچھ حصے قربانی کی طرف سے کرلیے جائیں تو یہ درست ہے۔ واضح رہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے یا بڑے جانور سے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک بکرے یا بڑے جانور سے ایک حصہ بطور عقیقہ کرنا مستحب ہے۔
قربانی کرنے والا ناخن اور بال نہ کاٹے
ام الموٴمنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جب (ماہِ ذی الحجہ کا) پہلا عشرہ شروع ہوجائے اور اس کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو اور وہ اس کی قربانی بھی کرنا چاہتا ہو تو وہ اپنے بالوں کو نہ کٹوائے اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے۔ [ صحيح المسلم] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو قربانی کرنا ہو وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے اپنے ناخن اور بال وغیرہ نہ کاٹے، یہاں تک کہ اپنی قربانی کرلے۔ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض فقہاء نے بال وناخن کاٹنا ناجائز وحرام قرار دیا ہے۔ احنافؒ کے نزدیک اگرچہ ناخن وغیرہ کاٹنا حرام تو نہیں لیکن بہتر بھی نہیں ہے، بلکہ مستحب یہی ہے کہ وہ قربانی کرنے تک بال کٹوانے اور ناخن تراشنے سے اجتناب کرے۔ اور حکمت اس حکم کی یہ ہے کہ حجاجِ کرام کے ساتھ کسی درجہ میں تشبہ اور مشابہت پیدا ہوجائے۔ [النّوي]
لہٰذا اگر بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے کی ضرورت ہو تو ذی قعدہ کے آخر میں فارغ ہوجائیں۔ البتہ اگر زیر ناف اور بغل کے بالوں پرچالیس روز کا عرصہ گزر چکا ہو تو ان بالوں کی صفائی کرنا بہتر ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب.
قربانی کرنے والا خود ذبح کرے
قربانی کے متعلق بنیادی اصول یہ ہے کہ آدمی اپنی قربانی خود ذبح کرے یا کم ازکم ذبح کے وقت حاضر رہے؛ یعنی قربانی کرنے کی سب سے بہترین صورت یہی ہے کہ از خود جانور لے کر اس کے ذبح ہونے تک کے مراحل میں شامل ہوا جائے، خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپؐ نے از خود اپنے دست مبارک سے دو مینڈھے ذبح کیے۔ [سنن الترمذي, وابن ماجة] نیز ایک حدیث میں ہے: نبی کریم ﷺ نے سیدتنا فاطمہ الزہراء رضی اللّٰہ عنہا سے فرمایا کہ قربانی کے وقت قربانی کے جانور کے پاس رہ کر قربانی ہوتے دیکھو۔ [المستدرك للحاكم] چنانچہ جس شخص کو جس قدر استطاعت ہو وہ قربانی کرنے کے سلسلے میں جانور خریدنے سے لے کر اس کے ذبح تک کسی قسم کی مشقت اٹھانے سے دریغ نہ کرے۔ تاہم اگر کسی مجبوری کی بنا پر کوئی شخص ازخود ان مراحل یا ان میں سے کسی مرحلے کو طے کرنے سے عاجز ہو، اور حصہ رکھوا کر قربانی کرتا ہے، تو قربانی کا واجب بہرحال ادا ہوجائےگا، گو کہ سنت کے ثواب سے محروم رہے گا۔
قربانی کے گوشت کی تقسیم کا طریقہ
قربانی کے گوشت کی تقسیم کے متعلق سب سے متوازن اور عادلانہ طریقہ یہ ہے کہ اسے تہائی حصے میں تقسیم کیا جائے: ایک تہائی غریبوں کے لیے، ایک تہائی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے لیے اور ایک تہائی اپنے لیے۔ قربانی کے گوشت کا زیادہ حصہ تر یا سارا صدقہ کردینا افضل ہے؛ کیونکہ اس میں سے کھانا مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔
قربانی کا گوشت غیر مسلم کو ہدیہ دینا
قربانی کا گوشت کسی غیر مسلم کو ہدیہ دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، خاص طور پر اگر وہ قربانی کرنے والے کا پڑوسی ہو یا غریب ومحتاج ہو، بشرطیکہ وہ مسلمانوں کا جنگی دشمن نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللّٰهُ عَنِ ٱلَّذِينَ لَمْ يُقَـٰتِلُوكُمْ فِى الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوٓا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ ٱلْمُقْسِطِينَ﴾ [الممتحنة: ۸] ’’اللّٰہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا، یقیناً اللّٰہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔‘‘ اور ان کو قربانی کا گوشت ہدیہ دینا حسن سلوک میں داخل ہے۔
قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے کا حکم
رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک سال غریبوں ومحتاجوں کی آمد کی وجہ سے تین دنوں سے زیادہ گوشت ذخیرہ کرنے سے منع فرمایا دیا تھا، پھر بعد میں تین دنوں سے زیادہ ذخیرہ کرنے کی اجازت عطا فرمادی۔
حضرت عبد اللّٰہ بن واقدؓ سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے، حضرت عبد اللّٰہ بن ابی بکرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عبد اللّٰہ بن واقدؓ نے سچ کہا ہے، میں نے حضرت عائشہؓ کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عید الاضحیٰ کے موقع پر کچھ دیہات کے لوگ آگئے تھے تو رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: قربانیوں کا گوشت تین دنوں کی مقدار میں رکھو، پھر جو بچے اسے صدقہ کردو۔ پھر اس کے بعد صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسول ﷺ! لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور چربی بھی پگھلاتے ہیں۔ تو رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: اور اب کیا ہوگیا ہے؟ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: آپؐ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان ضرورت مندوں کی وجہ سے جو اس وقت آگئے تھے تمہیں منع کیا تھا، لہٰذا اب کھاؤ، کچھ ذخیرہ بھی کر لو اور کچھ صدقہ بھی کردو۔ [صحيح المسلم]
اس حدیث سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ تین دن کے بعد بھی قربانی کا گوشت استعمال کرنا اور ذخیرہ کرلینا درست ہے۔
لیکن علماء نے اسی کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللّٰہ ﷺ نے جس وجہ سے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ استعمال کرنے سے منع فرما دیا تھا، اگر ممانعت کی وہ وجہ اب بھی کہیں پائی جائے تو پھر وہی حکم ہوگا کہ تین دن سے زیادہ استعمال کرنا اور ذخیرہ کرنا ممنوع ہوگا۔ موجودہ وقت میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور گوشت کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی بنا پر ممکن ہے کہ غریب ومحتاج کو عام دنوں میں گوشت کم ہی نصیب ہوتے ہوں تو مناسب ہے کہ اپنے لیے قربانی کا گوشت کم سے کم محفوظ کرنے کو ترجیح دیں اور فقراء ومحتاجوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ تقسیم کریں۔
***
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں